سردار صاحب کو خدا نے کافی عرصے کے بعد اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وہ بہت خوش تھے کہ چلو دیر سے ہی سہی مگر اولاد ملی تو ہے چار بیٹے اور چار بیٹیاں پہلے تین بیٹے ہوئے پھر دو بیٹیاں اور پھر بیٹے کے بعد دو بیٹیاں چونکہ بڑا بیٹا پہلی اولاد تھا اس لیے وہ لاڈلا اور اہم ٹھہرا۔ دن گزرتے گئے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا شروع ہوگئے۔ بڑے بیٹے تیمور نے بی اے تک تعلیم حاصل کی والدین تو چاہتے تھے کہ تمام بچے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور سرکاری عہدوں پر فائز ہوجائیں مگر تیمور اپنے باپ کے ساتھ کپڑے کا کاروبار کرنا چاہتا تھا اسی لیے اس کے شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے سردار صاحب نے اسے اپنا حصہ دار بنالیا۔
مارکیٹ میں ان کا ایک نام تھا وسیع کاروبار تھا، تیمور نے باپ کے ساتھ مل کر کاروبار کرنا شروع کیا تو شروع شروع میں کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا رفتہ رفتہ باپ نے بیٹے کو میچور کردیا باقی بچے بھی بڑی جماعتوں میں پہنچ چکے تھے۔ دونوں بیٹیاں ابھی چھوٹی جماعتوں میں تھیں باپ اپنے بچوں کی ترقی دیکھ کر بہت خوش ہوتا اور ماں بھی بڑے سے کچھ زیادہ ہی پیار کرتی تھی آہستہ آہستہ باپ نے دکان پر جانا کم کردیا اور بیٹے پر اندھا بھروسہ کرنا شروع کردیا بیٹے نے بھی خود کو چوہدری سمجھنا شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سردار صاحب کپڑوں کے بھائو تائو میں کوتاہی برتنے لگے اور اکثر کم قیمت وصول کرتے تیمور کو غصہ آتا تو باپ سے ایسی باتیں کرتا کہ کہ سردار صاحب خون کے آنسو روتے۔
تیمور نے ملازموں کو بھی ساتھ ملالیا اور ہیرا پھیری شروع کردی اور اپنا الگ سے بینک اکائونٹ کھلوالیا پہلے جو کاروبار مہینے میں لاکھوں کا منافع دیتا تھا اب ڈائون ہونا شروع ہوگیا، پوچھ گچھ کوئی نہ کرتا تھا، نتیجہ بیٹا خود کو ہی مالک سمجھ بیٹھا، ماں بھی اب کچھ کچھ سمجھ چکی تھی مگر لڑائی نہ ہو اس وجہ سے خاموش تھی کیونکہ دوسرے بیٹے بھی جوان تھے اور نیا خون کچھ بھی کرسکتا تھا۔ سب سے مشکل دور تو تب آیا جب تیمور نے خالہ زاد سے شادی سے انکار کردیا اور کہا میں نے اپنی پسند کی لڑکی کب سے چن رکھی ہے کڑوا گھونٹ کرکے سردار صاحب نے اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر اس خاندان میں جانا منظور کیا جو برسوں سے ان کا دشمن تھا گردن جھکا کر والدین بیٹے کی منگنی کرآئے حالانکہ والدین نے بیٹے کو بہت سمجھایا کہ یہ خاندان اچھا نہیں ہے تمہارے لیے مشکل پیدا ہوگی مگر بیٹے نے باپ کی محبت اور تجربے کو پس پشت ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا فیصلہ سنادیا۔ منگنی کے بعد اس نے شادی کیلئے شور مچانا شروع کردیا۔ تیمور سے چھوٹے نے ٹیچنگ شروع کردی۔ تیمور کی ایک ماہ بعد بڑی دھوم دھام اور شان و شوکت سے شادی ہوئی۔ شادی کے بعد تیمور کے تیور بدل گئے اور اس نے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے پاس بیٹھنا کم کردیا بات بات پر جھگڑا کرتا۔ سب ہی تیمور اور اس کی بیگم سے پیار کرتے تھے۔ حالات بہت کشیدہ ہونا شروع ہوگئے جب تیمور کی ساس آتی تو نئی سے نئی پٹی بیٹی کو پڑھا جاتی اس کے جانے کے بعد بیٹی بھی سب سے الگ تھلگ رہتی۔ تیمور نے گھر میں خرچہ دینا بند کیا تو ماں نے پوچھا کہ بیٹا ساری کمائی کدھر جاتی ہے تو کہتا مندے ہیں یا مال ڈلوالیا۔ عامر جو ٹیچر تھا اور دس ہزار اس کی تنخواہ تھی نے گھر کا خرچہ اٹھالیا مگر اس سے کیا بنتا ہے۔
تیمور نے بیگم کو ہی کل کائنات سمجھ لیا تھا۔ ماں اگر سائرہ کو تجربات کے پیش نظر کوئی بات سمجھاتی تو وہ اسے اپنی انا کا مسئلہ بنالیتی اور کہتی آپ کو تو بس دوسروں کے معاملات میں بولنا ہی آتا ہے۔ بیٹا بھی ہمیشہ ماں کو ہی غلط کہتا اور وہ کچھ کہتا کہ ماں کو اپنی محبت چاہت قربانی رائیگاں جاتی محسوس ہوتی وہ اکثر تنہائی میں رولیتی مگر تیمور کو توبیگم کے مگرمچھ کے آنسو نظر آتے تھے ماں کے دکھ بھرے آنسو دکھائی نہ دیتے تھے۔چھوٹے بہن بھائی اگر کچھ بولتے تو تیمور ماں کو کہتا کہ آپ نے انہیں بھی ہمارے خلاف کردیا ہے۔ وہی بہنیں وہی ماں جو تیمور کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھتے تھے اس کی خاطر دوسروں کے حقوق سے حق تلفی کرتے وہی تیمور آج بدل گیا بلکہ بھول گیا تھا اسے تو بس سائرہ کے محبت بھرے الفاظ دکھائی دیتے سائرہ پیار سے بلاتی تو وہ سر کے بل چلاآتا۔ ماں یا بہنیں کچھ مانگتیں تو سوائے خون کے آنسو رلانے کے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ یہ تو خدا کا شکر تھا کہ جائیداد سردار صاحب کے نام تھی ورنہ تیمور سب کو گھر سے بے گھر کردیتا۔
ماں کی محبت بھری نصیحت بھی سائرہ کا کانٹے کی طرح چبھتی تھی ماں اگر سائرہ کو اس کے لباس اٹھنے بیٹھنے کے معاملے میں سمجھاتی تو سائرہ چیخ کر بول اٹھتی اورتیمور بھی اس کا ساتھ دیتا وہی باپ جس نے اسے دنیا میں چلنا سکھایا اس کا ہر طرح سے خیال رکھا خوشیوں کو مدنظر رکھا اس کی پسند کی شادی کی وہی تیمور ماں بہنوں کو دینے کیلئے اچھے کپڑے اور اچھا کھانا پسند نہ کرتا۔ تیمور کے شادی کے دو سال بعد بیٹی عطا ہوئی وہ بہت پیاری تھی اس کا نام کائنات رکھا گیا سب کچھ بھلا کرسردار صاحب اور اس کے خاندان نے بچی کو جی جان سے چاہا بچی بھی ان کے بہت قریب ہوگئی لیکن کائنات کے والدین پھر بھی نہ سمجھ کہ ہم غلط ہیں۔ سردار صاحب کے باقی بچے کیا کرتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔
قارئین! یہ سچی داستان ہے آخر میں اس داستان کا جو نچوڑ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اولاد جس کی پیدائش پر والدین منوں مٹھائیاں بانٹتے ہیں وہی بیٹے اپنی اپنی زندگیوں میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ اپنی ذمہ داری اور فرائض بھول جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماں کی مٹھاس بھری بے لوث محبت اور باپ کی قربانیوں اور بہنوں کی دعائوں کو بھول جاتے ہیں ان کی محبت کا جواب محبت سے دینا تو دور انہیں جینے نہیں دیا جاتا اور وہ عورت جو خود کسی کی بیٹی کسی بہن ہوتی ہے جب بیوی بنتی ہے تو اپنا مقام ومرتبہ اور ذمہ داریاں بھول جاتی ہے وہی جو ماں باپ بہن بھائیوں کی ہر طرح کی باتیں سن لیتی تھی ماں کی ڈانٹ نہیں سہتی بلکہ ساس کی ذرا سی بات ماں کی پہاڑ جیسی بڑی بات سے زیادہ بُری لگتی ہے۔ خدارا اپنے اپنے ضمیر میں جھانکیے کہ والدین کا مقام ومرتبہ کتنی اہمیت رکھتا ہے خونی رشتے کتنی اہمیت رکھتے ہیں ہر رشتہ حقوق مانگتا ہے، ہر رشتہ پیار مانگتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ آج ہم جو بوئیں گے کل وہی کاٹیں گے۔ آج تیمور اپنے والدین کے ساتھ جو کچھ کررہا ہے کیا کل اس کی اولاد اس کو کچھ نہ کہے گی؟؟؟
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 497
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں